ہم اللہ کا دیا کھاتے ہیں اور اپنی قسمت کا پہنتے ہیں۔
کسی سلطنت کا ایک بہت بڑا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ بادشاہ کا کوئی بھی بیٹا نہیں تھا۔ اس کی سات بیٹیاں تھیں۔ وہ اپنے ساتھ بیٹیوں سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ جب یہ خوش ہوتا تو مجمع لگاتا اور لوگوں سے ایک سوال کرتا اگر لوگ اس کا جواب دے دیتے تو وہ ان کی ایک من پسند چیز دیتا۔
ایک دفعہ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے مجمع لگایا اور اپنے سات بیٹیوں کو بلا لیا۔ اس نے باری باری ان سے ایک سوال کیا۔ اس نے اپنی تمام بیٹیوں کو سوال پوچھا کہ بتاؤ تم کس کا دیا کھاتی ہو اور اس کا دیا پہنتی ہو؟
جس پر تمام بیٹیوں نے ایک ہی جواب دیا ابا حضور ہم آپ کا دیا ہوا کھاتے ہیں اور آپ کا دیا ہوا پہنتے ہیں۔ ہماری زندگی میں جو بھی عیش و عشرت ہے وہ صرف آپ کی ہی وجہ سے ہے۔ اگر آپ نہ ہوتے تو ہماری زندگی میں عیش و عشرت نہیں ہوتی۔ صرف ایک بیٹی نے اس کا الٹ جواب دیا۔ یہ سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ اس نے کہا ابا حضور ہم اللہ کا دیا ہوا کھاتے ہیں اور اپنی قسمت کا کھاتے ہیں۔
یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔ بادشاہ نے نے اپنی بیٹی کو بہت برا بھلا کہا۔ بادشاہ نے کہا کہ تم نے میری بےعزتی گئی ہے۔ تم کو اس کی سزا ضرور بھگتنی ہوگی۔ اب میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم کیسے اللہ کا دیا ہوا کھاتی ہوں اور اس کا دیا ہوا پہنتی ہو۔
بادشاہ نے اسی ٹایم سپاہی بلائے اور ان کو حکم دیا کہ شہزادی کو دور جنگل میں چھوڑ آؤ۔ حکم کی تعمیل ہوئی شہزادی کے جسم سے شہزادی والا لباس اتار لیا گیا اور ایک پرانا لباس جو خستہ حالت میں بھی نہیں تھا وہ پہنا دیا گیا۔ سپاہیوں نے شہزادی کو دور جنگل میں اکیلے چھوڑ دیا۔
شہزادی جنگل میں بالکل اکیلی تھی اور جنگلی جانور دور سے دھاڑ رہے تھے۔ لیکن شہزادی اندر سے بالکل مطمئن تھی کیونکہ اس کو اپنے اللہ پر پورا یقین تھا۔ شام ہونے والی تھی تو شہزادی نے لکڑیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ لکڑیاں اکٹھے کرتے ہوئے اس کی نظر ایک جھونپڑی پر پڑی۔ اندر سے کسی کے کھانسنے کی آواز آ رہی تھی۔
شہزادی نے جھونپڑی میں جھانک کر دیکھا تو اندر ایک ضعیف ایف آدمی لیٹا ہوا تھا۔ پر منہ سے پانی پانی کہہ رہا تھا۔ شہزادی اندر گئی اور دیکھا کہ سائیڈ میں پانی کا گھڑا مجود ہے۔ شہزادی نے اس میں سے پانی نکالا اور اس بوڑھے آدمی کو دے دیا۔ شہزادی کو اس گھنے جنگل میں دیکھ کر بڑا آدمی حیران ہو گیا۔ اس نے شہزادی سے سوال کیا کہ تم کون ہو اور اس جنگل میں کیا کر رہی ہو؟
جس پر شہزادی نے اپنا سارا قصہ سنایا۔ بوڑھے آدمی نے شہزادی کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیار کیا۔ اور کہا میرا بیٹا اللہ پاک تمہارا یقین کبھی نہیں توڑے گا۔ میں صبح کام پر چلا جاؤں گا تم ادھر جھونپڑی میں ہی رہنا۔ جھونپڑی کے ساتھ ایک بکری بندی ہوئی ہے تم بکری کا دودھ دھو کر پی لینا۔ ساتھ ندی ہے اور ادھر سے پانی بھر لانا۔
شہزادی کو یہ کہہ کر بوڑھا شخص کام پر چلا گیا۔ شہزادی نے پہلے اچھی طرح سے جھونپڑی کی اچھی طرح سے صفائی کی۔ پھر ندی سے پانی بھر کر لے آئی۔ شہزادی نے بکری کا دودھ دھویا اور آدھا پیالہ خود پیا اور آدھا پیالا باہر رکھ لیا۔ شہزادی کا ماننا تھا کہ اگر کوئی جانوربھوکا ہوگا تو وہاں دودھ پی لے گا۔ صبح جب شہزادی نے اٹھ کر دیکھا تو وہ خالی تھا اور اس کے ساتھ ایک بہت خوبصورت قیمتی نیلے رنگ لال پڑا ہوا تھا۔
شہزادی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی ۔ صبح پھر شہزادی نے آدھا پیالہ دودھ کا باہر رکھ دیا۔ اور اگلی صبح جب اٹھ کر دیکھا تو اس کے ساتھ بھی ایک لال پڑا ہوا تھا۔ شہزادی نے یہ سن رکھا تھا کہ جب کوئی ناگ خوش ہوتا ہے تو وہ ایک لال اگل دیتا ہے۔ شاید یہ کوئی ناگ دودھ پی کر خوش ہوا ہو تو وہ لال اگل گیا ہو۔
شہزادی پورے سات دن جھونپڑی کے باہر دودھ رکھتی رہی اور 7 دن لال ملتا رہا۔ جب بوڑھا آدمی کام سے واپس آیا تو شہزادی نے اس کو تمام قصہ سنایا۔ شہزادی نے چار لال اس کو دیے اور کہا کے اس کو شہر میں بیچ دیں اور ساتھ میں کسی محل بنانے والے کو لے آنا۔ وہ لال بہت ہی زیادہ قیمت میں فروخت ہوئے۔ بوڑھے آدمی نے آتی دفعہ محل بنانے والوں کو اپنے ساتھ لے آیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں ایک بہت بڑا محل تعمیر کیا گیا۔ جو پیسے بچ گئے اس سے لکڑیاں کاٹنے اور شہر بیچنے کے والی فیکٹری تعمیر کروائی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہزادی کا چرچا بڑھتا چلا گیا یا۔ کیونکہ شہزادی بہت رحمدل تھی اور غریب لوگ اس فیکٹری میں کام کرتے اور شہزادی کی تعریف کرتے۔ شہزادی کا چرچا چلتے چلتے بادشاہ تک بھی پہنچ چکا تھا۔ بادشاہ کو اندر سے بہت تجسس ہوا کہ وہ شہزادی کو ملے اور دیکھے کہ کون سی شہزادی اتنی رحمدل ہے جس کی تعریف کر رہا ہے۔
بادشاہ نے سپاہیوں کے ذریعے بلاوا بھیجا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ شہزادی نے کہا کہ میں ایک شرط پر بادشاہ سے ملوں گی اگر وہ اپنی ساری بیٹیوں کو ساتھ لے کر آئے گا۔ لہذا بادشاہ اپنی تمام بیٹیوں کو ساتھ لے کر محل پہنچ گیا۔ شہزادی کے رہن سہن کو دیکھ کر بادشاہ اور اس کی بیٹیاں دنگ رہ گئی۔ شہزادی نے نقاب کیا ہوا تھا اس لیے ان کی بہنیں اور ان کے والد نے ان کو نہ پہچانا۔ شہزادی کے گلے میں میں تین قیمتی موتی دیکھ کر تمام شہزادیاں دھنگ رہ گیا۔ اور آپس میں شہزادی کے رہن سہن اور لباس کی تعریف کرنے لگی۔
بادشاہ نے کہا کہ تم میری بیٹی جیسی ہو تو پھر پردہ کیوں؟
اس پر شہزادی نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کی بیٹی جیسی ہو تو میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ بادشاہ کی بیٹیاں آپس میں باتیں کرنے لگ پڑی کہ ابھی اتنی تیار ہوئی ہے اور کتنا تیار ہونا ہے؟
کیا دیکھتے ہیں کہ دور سے وہی خستہ حال لباس اس پر پہنے ہوئے ایک لڑکی چلی آ رہی ہے۔ بادشاہ نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا تو کہا کہ تم ابھی تک زندہ ہو
۔ مجھے بتاؤ میں شہزادی سے تمہاری آزادی کا کہتا ہوں چاہے اس کے لیے مجھے اپنی پوری جائیداد کیوں نہ دینی پڑے۔ جس پر بادشاہ کی بیٹی نے کہا کہ ابا حضور میں ہی ملکہ ہو اس محل کی۔
آپ کو میں نے کہا تھا نہ کہ اللہ کا دیا ہوا میں کھاتی ہوں اور اپنی قسمت کا دیا ہوا پہنتی ہو۔ تو لیجئے آپ کے سامنے میں اللہ کے دیے ہوئے محل میں رہتی ہو اور اللہ کے دیے ہوئے پہنے میں آج خوبصورت لباس بی پہنا ہوا ہے۔ جس پر بادشاہ اپنی بات پر کافی شرمندہ ہوا۔
اس نے کہا کہ میں نے سپاہیوں کو بہت دفعہ جنگل میں تمہارا حال پوچھنے کے لیے بھیجا تھا ۔ لیکن سپاہیوں نے کہا کہ آپ کی بیٹی نہیں ملی تو میں نے سوچا کہ میری بیٹی کو جنگلی جانور کھا چکے ہوں گے۔ پر میری بیٹی آپ نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ دیتا ہے وہ اللہ کا ہی ہے۔ میں گنہگار اپنے آپ کو ایسے ہی سمجھ رہا تھا کہ میں جو کچھ دیتا ہوں وہی تم کھاتے ہو۔
بادشاہ نے اللہ کے حضور گر کر سجدہ کیا اور معافی مانگی۔ اور آئندہ شرک کرنے سے توبہ کر لی بے شک اللہ معاف کرنے والا ہے۔