Blog

Keep up to date with the latest news

دنیا بھر کی دولت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔

  دنیا بھر کی دولت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی دولت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ آپ کے پاس دولت کے انبار موجود ہوں لیکن آپ کی صلاحیت نہیں کہ آپ ایک پانی کا گلاس پی سکتے ہو تو یہ دولت مل کر ایک گلاس پانی کی قیمت بھی نہیں دے سکتی۔ 

کسی سلطنت کا ایک بہت بڑا بادشاہ تھا۔ اس کو دولت کا بڑا ہی لالچ ہوا کرتا تھا۔وہ ہر وقت دولت جمع کرنے کے خیال میں رہتا۔ اس نے اپنے وزراء بھی اسی کام پر لگائے ہوئے تھے۔ دولت حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی رعایا پر ظلم و ستم بھی کرتا۔ اس کی جاگیر میں کوئی بھی مظلوم سکھ کا سانس نہیں لے سکتا تھا۔ اس نے لوگوں پر ظلم ڈھا کر بہت سارا مال اکٹھا کر لیا۔ اس کے پاس اب لاتعداد دولت تھی۔ 

all money is not equal to glass of water



اس نے ایک جگہ سو اونٹ منگوائے اور ان پر دولت کر کسی محفوظ جگہ چھپانے کا ارادہ کیا۔ دور دراز بیاباں جنگل میں اس نے ایک غار کو منتخب کیا۔ اس نے اپنی ساری دولت اس غار میں اکٹھی کر دی۔ اور باہر غار کو تالا لگا  دیا۔ اس نے  تالے کی دو چابیاں بنوائیں۔ ایک چابی اس نے اپنے پاس رکھیں اور ایک چابی اس نے اپنے وزیر خاص کو دے دی۔ 

وزیر مہینے میں دو تین دفعہ غار کے چکر لگاتا اور آکر بادشاہ کو بتاتا۔ ایک دفعہ بادشاہ نے خود خزانہ دیکھنے کا ارادہ کیا۔ یہغار پہنچا اور پہنچ کر اندر ہیرے جواہرات اور سونے سے لدے ہوئے کمرے میں بیٹھ گیا۔ یہ سونے سے لدے ہوئے اوئے کمروں میں بیٹھ کر بہت خوش ہوا۔ 

وزیرکو کسی اور ملک کام کے لیے جانا تھا تو اس کا گزر اسی غار کے سامنے سے ہوا۔ جب اس نے غار کا دروازہ کھلا دیکھا تو اس نے کہا شاید جب میں کل خزانہ دیکھنے کے لئے آیا تھا تو میں نے دروازہ بند نہیں کیا ہوگا۔ اس نے جلدی جلدی سے دروازہ بند کیا اور باہر سے تالا لگا کر اپنے سفر کے لیے روانہ ہو گیا۔ 

بادشاہ جب اپنا خزانہ دیکھ کر فارغ ہوا تو واپسی جانے کا ارادہ کیا۔ اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ نہیں کھل سکا۔ اس نے دروازے کو کھٹکھٹانا شروع کر دیا، لیکن اس کی فریاد سننے والا کوئی بھی موجود نہ تھا۔ بادشاہ جب دروازہ کھٹکھٹا کر تھک گیا تو واپس آکر خزانے کے درمیان بیٹھ گیا۔ اور ان کو دیکھ کر اپنا دل بہلانے لگا۔ 

لیکن کچھ ہی دیر بعد بھوک اور پیاس کی وجہ سے بادشاہ ڈھال ہو رہا تھا۔ بادشاہ پھر دروازے پر بھی آیا اور دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا، اس دفعہ بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے بادشاہ اب چل بھی نہیں پا رہا تھا۔ وہ رینگتے ہوے ہیرے کی بھری ہوئی الماری کے پاس گیا اور جا کر کہا کے مجھے ایک ٹائم کا کھانا اور ایک گلاس پانی دے دو۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہیرے اس پر ہنس رہے ہو۔

بادشاہ رنگ تا ہوا اپنے موتیوں کی الماری کے پاس گیا اور جا کر التجا کی کہ مجھے ایک ٹائم کا کھانا اور پانی دے دو۔ میں نے ساری عمر تمہاری نگرانی کی ہے میں نے لوگوں سے تم کو چھین کر ادھر رکھا ہے۔ میں نے لوگوں کی نظروں سے بچا کر تم کو ادھر رکھا ہے۔ مجھ پر مہربانی کرو مجھے ایک گلاس پانی اور کچھ کھانے کے لیے دے دو۔ جس پر موتیوں نے جواب دیا اے انسان ساری زندگی تو دولت اکٹھی کرتا رہا ظلم ڈھاتا رہا، ہم بے جان کہاں سے تم کو ایک وقت کا کھانا اور پانی دیں۔ 

بادشاہ غش کھا کر گرا اور گرتے بے ہوش ہوگیا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو اس نے زمین پر ہیرے اور جواہرات رکھے اور اس پر لیٹ گیا۔ بادشاہ اور مرنے کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ بادشاہ لوگوں کو پیغام دینا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی کاغذ اور قلم نہیں تھا۔ بادشاہ نے ہیرا اٹھایا اور اپنی انگلی پر مار کر خون نکالا اور دیوار پر کچھ لکھا اور اس کے بعد اس کی روح پرواز کر گئی۔ 

ادھر بادشاہ کو ڈھونڈنے کے لئے اس کے سپاہی دن رات مارے مارے پھر رہے تھے۔ جب وزیر خزانہ کو دیکھنے کے لئے غار میں آیا تو اس نے دیکھا کہ بادشاہ ہیرے اور جواہرات کے بستر پر مرا پڑا ہے۔ اور دیوار پر خون سے لکھا ہوا ہے

یہ ساری دولت مل کر ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔ 

دولت کمانا کوئی عیب نہیں انسان کو محنت کرنی چاہیے۔ لیکن حرام کی کمائی ہوئی دولت میں کوئی برکت نہیں ہوتی۔ دولت زمین پر ہی رہ جاتی ہے اور انسان در در کی ٹھوکریں کھا کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا تھوڑی کھائیں محنت سے اور حلال کھاہیں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *