آپ کو اپنے آپ میں اعتماد کرنا ہوگا
کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک بہت بڑا بزنس میں رہتا تھا۔ اس کا بزنس دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ اس کا نام علاقے کے بڑے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کے پاس دولت کے بڑے بڑے انبار موجود تھے۔ لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا، قسمت اس کی ایک زوردار پلٹا کھایا اور اس کا بزنس منہ کے بل آ گرا۔ اس کے بزنس اب نیچے کی طرف چلنا شروع ہو گیا۔ وہ جس پر بھی کام کرتا ہے وہ فیل ہو جاتا۔
یہاں تک کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ آئی کے وہ دیوالیہ ہونے والا تھا۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی اپنی پریشانیوں کو حل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن جو بھی وہ حربہ استعمال کرتا وہ فیل ہو جاتا۔ اس نے تھک ہار کر اپنے آپ کو قسمت کے حوالے کردیا۔
اسی پریشانی کے دوران وہ ایک دور دراز کے علاقے میں نکل گیا اور وہاں اس نے بچوں کو ایک پارک میں کھیلتے دیکھا، وہ بھی جاکر اس پارک میں بیٹھ گیا اور اپنا سر نیچے کر کے پریشانی کے عالم میں پاؤں کو دیکھنے لگا۔ اتنی دیر میں ایک بزرگ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟
اس پر بزنس مین نے اپنے تمام حالات اس کو بتا دیے کہ کیسے وہ ایک امیر شخص تھا اب وہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ دیکھ کر بوڑھے آدمی نے اس سے کہا کہ شاید میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔ بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں سے چک بک نکالی اور اس کو پانچ کروڑ ڈالر کا چک لکھ کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ دیکھ کر بزنس مین حیران ہو گیا کہ واقعی ہی وہ پانچ کروڑ کا چیک، اور اس پر اس زمانے کے سب سے امیر ترین شخص راجر ٹیلر کے دستخط موجود تھے۔
چیک دے کر آدمی اپنی جگہ سے چلا گیا اور جاتی دفعہ بوڑھے نے بزنس مین سے کہا کہ اگلے سال کے اسی دن تم مجھ کو یہاں آکر ملو گے اور پانچ کروڑ ڈالر مجھ کو واپس کرو گے۔ یہ پانچ کروڑ ڈالرز تم پر ادھار ہیں تم ان سے اپنا بزنس سیٹ اپ کرو اور اس کو چلاؤ۔ یہ پیسے اب تمہارے ہیں تم جیسے چاہو ان کو استعمال کرو۔
بزنس مین وہ چیک لے کر اپنے دفتر چلا گیا اور جا کر اس نے لوگوں کے ساتھ اپنی مرضی کی ڈیل کی، اس نے اپنی شرطوں پر لوگوں کے ساتھ بزنس کرنا شروع کر دیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس چیک موجود ہے اگر وہ دیوالیہ ہوا تو وہ چیک استعمال کر کے اپنا نقصان پورا کر سکتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا بزنس چل نکلا۔ اس کا بزنس اب دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ اس کا نام پھر بہترین تاجروں میں شمار ہونا شروع ہوگیا۔
ایک سال گزر گیا پر حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہ ایک کروڑ ڈالر کا چیک ابھی بھی اس کی جیب میں تھا۔ یہ نوبت ہی نہیں آئی کہ اس کو خرچے۔ وہ چیک لے کر اسی پارک کی طرف چل پڑا جس پارک میں اس بزرگ آدمی نے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
وہ اس پارک میں پہنچا اور بزرگ آدمی کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ آخرکار اس کو وہ بزرگ ایک بینچ پر بیٹھا ہوا مل گیا۔ ابھی وہ بزرگ کے پاس جا کر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک لڑکی تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔ اور آپ کر اس بزنس مین سے بولی معذرت اگر ان بزرگ نے آپ کے ساتھ کوئی بات کی۔ یہ روز صبح گھر سے نکلتے ہیں اور اپنے آپ کو راجر ٹیلر سمجھتے ہیں۔
یہ سنتے ہی بزنس مین حیران و پریشان ہو گیا کہ وہ چیک ایک نقلی چیک تھا۔ لیکن اس کی خودعتمادی بالکل اصلی تھی جو اس چیک کی وجہ سے اس کو آہی تھی۔
نتیجہ۔
خود اعتمادی انسان کو زیرو سے ہیرو بنا دیتی ہے۔ آپ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے بلکہ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ آپ جو کر سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ آپ اپنے آپ کو اپنی نظروں میں مت گرائیں، بلکہ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور ایسے کرشیمے کر دکھائیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں۔ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ لوگ کیا سوچیں گے بلکہ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ اگر ایک دفعہ آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گی تو یقین جانیے آپ کو کامیاب ہونے سے کوئی بندہ بھی نہیں روک سکتا۔