Blog

Keep up to date with the latest news

ہماری رعایا بہت ڈیٹھ ہے۔

                                       ہماری رعایا بہت ڈیٹھ ہے۔

کسی ملک کا ایک بہت بڑا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ وہ بہت انصاف پسند اور بہت دلدادہ تھا۔ وہ اپنی قوم کی ہر مشکل میں مدد کرتا۔ بادشاہ ایک طرح سے مطمئن تھا کہ اس کی قوم اب خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔ 

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ملک میں کپاس کی کمی ہوگی۔ کپاس دوسرے ملک سے منگوانا پڑھ رہی تھی۔ کپاس منگوانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اور پیسہ اکٹھا کرنے کے لئے لوگوں پر نیا ٹیکس لگانا تھا۔ بادشاہ کو جب یہ تجویز دی گئی تو بادشاہ اس تجویز کو نہ مانا۔ کیونکہ بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کی رعایا کبھی بھی اپنے بادشاہ کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔ لیکن ان کے وزیروں نے بادشاہ کو بتایا کہ بادشاہ سلامت آپ نے ٹیکس لگا دیں آپ کی قوم بڑی ڈیٹھ ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے منہ سے آپ کے خلاف بات نہیں کرے گی۔ لیکن بادشاہ اس بات کو نہیں مان رہا تھا۔ وزیر نے اس بات کو سچ کرنے کے لیے بادشاہ سلامت سے کچھ دن کا ٹائم مانگ لیا۔ اور کہا کہ بادشاہ سلامت آپ بس میری ہاں میں ہاں ملا دیجیے گا۔ بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے

our condition in government


بادشاہ کی سلطنت میں ایک شہر کو دوسرے شہر سے کے درمیان دریا موجود تھا۔ اور لوگ کاروبار کے لیے دریا کو پار کر کے دوسرے شہر جایا کرتے تھے۔ وزیر نے ایک چھوٹا سا پل جو دو شہروں کو آپس میں ملاتا تھا وہ بند کروا دیا۔ اب لوگوں کو گھوم کر چار کلومیٹر کا سفر کر کے جانا پڑتا۔ لوگ کافی پریشان تھے۔ 

بادشاہ کو یہ سب پسند نہ آ رہا تھا۔ پر وہ اپنی کہی ہوئی بات پر مجبور تھا۔ لہذا یہ سب کچھ بیٹھ کر وہ دیکھ رہا تھا۔ کچھ دن گزر جانے کے بعد وزیر نے  پل کو کھول دیا اور گزرنے پر ٹیکس لگا دیا۔

لوگ آسانی سے آتے پیسے دیتے اور گزر جاتے ۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی رعایا نے آگے سے کوئی بات نہ کی بلکہ چپ چاپ ٹیکس دیا اور گزر گئے۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت ابھی اور بھی دیکھیں۔ وزیر نے ٹیکس کو ڈبل کر دیا۔ پھر بھی لوگ آتے ٹیکس دیتے اور گزر جاتے۔ بادشاہ یہ سب کچھ دیکھ کر کر حیران ہو رہا تھا۔ 

وزیر نے اور سختی کر دی۔ ٹیکس کو تین گنا کر دیا۔ لوگ آتے بادشاہ سلامت کے بارے میں کچھ باتیں کہتے اور ٹیکس دیتے چپ چاپ گزر جاتے۔ لیکن ایک بندہ نے بھی ٹیکس کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ کوئی بندہ بھی بادشاہ کے دربار میں ٹیکس کی شکایت لے کر حاضر نہ ہوا۔ 

وزیر نے ایک نیا کام کیا۔ اس نے پل کے دونوں جانب ایک ایک سپاہی کو کھڑا کر دیا۔ سپاہی کو حکم دیا کہ جب بھی کوئی گزرے تو اس کو ایک ایک جوتا مارا جائے۔ لہذا لوگ آتے ٹیکس دیتے جوتا کھاتے اور گزر جاتے۔ 

بادشاہ بڑا حیران ہوا کہ میری قوم تو اتنی نکمی ہے۔ یہ اپنے بارے میں کچھ اچھا اور برا بھی نہیں سوچ سکتی۔ وہ جس حال میں رکھو اسی حال میں رہتی ہے۔ قوم کو صرف جینے سے غرض ہے۔ جو کچھ بھی ہو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں کیسی ان پڑھ اور جاھل قوم کا سربراہ ہو۔ جس کو اپنے اچھے اور برے کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ 

وزیر نے کام کو مزید تیز کرتے ہوئے جوتوں کی مقدار بڑھا دی۔ اب ایک کی بجائے تین جوتے مارے جاتے اور لوگوں کو  گزرنے دیا جاتا۔ کچھ ہی دن گزرنے کے بعد سارے لوگ احتجاج کرنے شروع ہو گئے۔ سارے مل کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ اور اپنی مشکلات کو بیان کرنے لگے۔ 

بادشاہ وزیر سے کہنے لگا دیکھو میری رعایا بہت معصوم ہے کتنا ظلم سہتی۔ آخر کار ان کو میرے دربار میں آنا ہی پڑا۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت آپ ان کی بات تو سن لیں پھر کچھ فیصلہ کیجئے گا۔ بادشاہ نے کہا بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟

لوگوں نے اپنی بات کرنی شروع کی، بادشاہ سلامت آپ نے پل پر ٹیکس لگایا ہم چپ رہے۔ آپ نے ٹیکس کو دو گناہ کیا ہم چپ رہے۔ بات یہاں تک کہ نہیں روکی اپ نے ٹیکس کو تین گناہ تک کردیا ہم پھر بھی چپ رہے۔ پھر آپ نے پل کے دونوں اطراف ایک ایک سپاہی کو کھڑا کر دیا۔ اور وہ آتے جاتے رہ گیروں کو جوتے لگانے لگے۔ بادشاہ سلامت ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔ 

بادشاہ نے کہا کہ تم آپ کیا چاہتے ہو؟

لوگوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت ہم کچھ نہیں چاہتے آپ صرف جوتے مارنے والے سپاہی زیادہ کرلیں کیونکہ ہم کو دوسرے شہر جانے میں دیر ہو جاتی ہے۔ آپ کا ایک سپاہی ہے اور لوگوں کا پل پر ھجوم لگ جاتا ہے۔ ہم کو اپنے کام کاج سے دیر ہو۔ لہذا آپ اس طرح کیجیے سپاہی زیادہ کر لیجئے جو جلدی جلدی جوتے لگائیں اور ہم جلدی جلدی اپنے کام کاج کی طرف چلے جائیں۔ 

بادشاہ یہ سب سن کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اور کہا کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جب تک کسی میں خود کو بدلنے کی چاہت نہ ہو اس کو بدلہ نہیں جا سکتا۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *