وہ 65 سال کی عمر میں دنیا کا ارب پتی انسان
یہ کہانی ایک نہایت ہی بدقسمت انسان کی کہانی ہے۔ جب وہ پانچ سال کا تھا تو اس کا والد فوت ہوگیا۔ مان لوگوں کے کپڑے سینے پر مجبور ہوگئے۔ کپڑے سی کر بھی وہ گھر کا خرچ نہیں چلا سکتی تھی۔ لہذا اس نے کپڑے سینے کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ صبح سویرے فیکٹری نکل جاتی اور شام کو گھر آتی۔ یہ چھوٹا بچہ اپنا اور اپنے بہن بھائیوں کا خیال۔ اس چھوٹے بچے نے چھ سال کی عمر میں بریڈ بنانا سیکھ لیا۔
اس نے آدھی بریڈ اپنے بہن بھائیوں کو کھلائی اور اس کو یاد آیا کہ اس کی ماں صبح بھوکے پیٹ فیکٹری چلی گئی تھی تو اس نے آدھی بریڈ ٹفن میں ڈالی بیگ کندھے پر لٹکایا اور پیدل چھے کلومیٹر چل کر فیکٹری پہنچ گیا۔ فیکٹریاتنی بڑی تھی کہ یہ اپنی ماں کو مسلسل دو گھنٹے تک ڈھونڈتا رہا۔ جب اس کی ماں نہ ملی تو یہ لان میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی ماں نے دور سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور بھاگتی ہوئی اپنے بیٹے کے پاس آئی۔ اس نے بیگ میں سے بریڈ نکال کر اپنی ماں کو دی۔ ماں نے بریڈ کھائی اور اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔ ماں اوپر سے رو رہی تھی اور اپنے بیٹے کے ہاتھوں کو چوم رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ اس کو دعا بھی دے رہی تھی۔ ماں کی دعا کے علاوہ اس کے پاس بھی ہیں اور کوئی اچھی بات نہ تھا۔
اس نے فارم ہاؤس میں کام کیا فیل ہوگیا۔ گھروں میں پینٹ شروع کی فیل ہوگیا۔ وہ نالائق سٹوڈنٹ تھا ساتویں کلاس سے اوپر نہ جا سکا۔ وہ کنڈکٹر بھرتی ہوا فیل ہوگیا۔ ٹرین میں صفائی کا کام ملا اس میں فیل ہو گیا۔ فوج میں بھرتی ہوا تو ادھر سے نکال دیا گیا۔ مال میں کام کیا وہاں سے بھگا دیا گیا۔ قانون پڑھا وکیل بنا مکمل طور پر فیل ہوگیا۔ انشورنس میں کام کیا وہاں سے نکال دیا گیا۔
آپ ذرا ناکامیاں گنتے جائے۔ 18 سال کی عمر میں شادی کی تین بچے ہوگئے، بیوی نے روز روز کے فاقوں اور ناکامیوں سے تنگ آکر طلاق لے لی۔ 30 سال کی عمر میں ویری بورٹ کے نام سے کشتیوں کی کمپنی کھولی شروع میں تو یہ کمپنی چل نکلی لیکن یہ بھی فیل ہو گئی۔ شروع میں امریکہ میں لوگ لالٹین استعمال کرتے تھے۔ اس نے لالٹین کی کمپنی کھول لی اور وہ کمپنی چل نکلی۔ پورے امریکہ سے آرڈر آنے شروع ہوگئے۔ لیکن ایک کمپنی نے بلب بنانے شروع کر دیئے۔ اور اس کی کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔ اس نے سروس سٹیشن کھولا وہ بھی بند ہوگیا۔ چالیس سال کی عمر میں اس نے ایک ہوٹل کھولا جس کو آگ لگ گئی۔
قرض لے کر اس نے دوبارہ ایک نیا ہوٹل کھولا تو دوسری جنگ عظیم شروع ہوگی۔ اور یہ ہوٹل بھی بند ہوگیا۔ اس نے ریسٹورنٹ کھولا۔ وہ اس ریسٹورنٹ میں وہ فرائی چکس بنا کر دیتا تھا جو یہ بچپن میں اپنی ماں اور اپنے بہن بھائیوں کے لیے بناتا تھا۔ اس کی بدقسمتی دیکھئے اس کے ریسٹورنٹ کی جگہ پر حکومت نے ہاے وے بنا دیا۔ اور اس کا ریسٹورنٹ گرا دیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر 63 سال ہو چکی تھی۔ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا اس کی عمر 63 سال ہو چکی تھی۔ ان تریسٹھ سالوں میں اس شخص نے صرف ایک ہی سبق سیکھا، کبھی بھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔
جب وہ ریسٹورنٹ میں تھا تو اس نے گیارہ مصالحہ جات کو ملا کر ایک ریسپی تیار کی اور وہ یہ کہتا تھا کہ اس ریسپی سے چکن دنیا میں اور کوئی نہیں بنا سکتا۔ اس نے اپنی یہ ریسپی مختلف ریسٹورنٹ پر دینے کا سوچا۔ اس کے جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ اس نے نے 83 ڈالر کہیں سے ادھار لیے۔ گاڑی لی اور چل نکلا۔ وہ پورے دو سال تک گلیوں کوچوں اور ریسٹورنٹ میں پھرتا رہا۔ وہ ان دو سالوں میں سڑکوں پر اور گلیوں میں سوتا رہا۔ اس نے دو سال میں پورا امریکہ پھرا۔ وہ پورے ایک 1009 ریسٹورنٹ میں اپنی ریسیپی لے کے گیا۔ لیکن کسی نے بھی اس کی ریسپی میں دلچسپی نہیں دکھائی آئی۔
یہ ان دو سالوں میں پورے 1009 مرتبہ فیل ہوا۔ لیکن اس نے ان دو سالوں میں کبھی ہار نہیں مانی۔ اس پوری دنیا میں صرف ایک ہی ایسا شخص ہے جس کو یقین تھا کہ اس کی ریسیپیز ضرور کامیاب ہو گی۔ اور وہ اکیلا شخص یہ خود تھا۔ یہ ایک شہر پہنچا اور وہاں پر ایک ریسٹورنٹ کے مالک سے ملا۔وہاں کے اونر پیٹر ہارمنر کو اپنا چیکن ٹیسٹ کروایا۔ انہوں نے اس کا چکن اپنے مینیو میں شامل کر لیا۔ انہوں نے اس چکن کا نام کینٹکی فرائی چکس رکھا۔ بس یہ ہے نام مینیو میں آنے کی دیر تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا چکن پوری دنیا میں پھیل گیا۔
یہ 90 سال کی عمر میں وفات پایا تو پوری دنیا میں اس کے 12600 ریسٹورنٹ تھے۔ اور یہ سالانہ دس ہزار ارب کما رہے تھے۔ اس کمپنی کے مالک کا نام کرنل سینڈر تھا۔ آپ کو کے ایف سی کے حربے پر کرنل سینڈ کی تصویر لازمی دکھائی دے گی۔ یہ دنیا میں ایک ایسا واحد شخص تھا جس کو بدقسمتی نے ہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن یہ ایک خود ایسا واحد شخص تھا جس کو اپنے آپ پر پورا یقین تھا۔
جب تم زندگی میں ناکام ہونے لگو تو ایک دفعہ اس کی کہانی کھول کر پڑھ لو۔ کامیابی زندگی میں موجود ہوتی ہیں اور یہ زندگی کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ اگر تم ناکامیوں کو لے کر بیٹھ جاؤ گے تو کبھی کامیاب نہیں۔ زندگی کے آخری دم تک ہار نہ مانو۔ میں اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک میں اندر سے مر نہیں جاتا۔ بس اس پر عمل کریں اور کامیاب ہوجائیں۔