Blog

Keep up to date with the latest news

مسجد وزیر آباد اور اور شہر وزیر آباد کی دلچسپ کہانی

 مسجد وزیر آباد اور اور شہر وزیر آباد کی دلچسپ کہانی

آپ سب لوگ مسجد وزیرآباد اور شہر وزیرآباد سے ضرور واقف ہوں گے۔  اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو آپ کو مسجد وزیر آباد کا لازمی پتہ ہوگا۔ لیکن یہ کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ مسجد وزیرآباد کو بنانے والا ایک حکیم تھا۔ یہ ایک غریب حکیم تھا اس کے نام پر مسجد وزیرآباد اور شہر وزیر آباد ,,آباد ہوا ۔ 

blue masque in Turky


نواب وزیر خان صاحب ایک معمولی سے حکیم تھے۔ ان کا اصل نام علیم الدین انصاری تھا۔ یہ وزیر آباد کے شہر کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں حکمت کرتے تھے۔ شہر میں اور بھی بہت بڑے حکیم کے جن کے مقابلے میں آپ کی حکمت کم چلتی تھی۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کی حکمت نہ ہونے کے برابر تھی۔ حکیم صاحب پانچ وقت کی نمازی، پرہیزگار، قناعت پسند، دریا دل اور صبر شکر کرنے والے تھے۔ وہ ہر معاملے میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے اور غربت میں بھی اللہ پاک کا شکر ادا کر رہے ہوتے ۔ ان کے اوپر جیسا بھی وقت ہوتا ہوں اللہ پاک کی مرضی سمجھتے۔ حکمت نہ چلنے کی وجہ سے حکیم صاحب فاقوں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ انکی بیوی اکثر ان کے حکمت کو طعنے دیتی۔ اور حکمت چھوڑ کر کوئی اور کام کرنے کا کہتی۔ لیکن یہ اپنے بیوی کے طعنے سے کبھی پریشان نہ ہوئے بلکہ مسکرا کر اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کا کہتے۔ 

ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے ہاں پورے ایک ہفتے تک گھر کا چولہا نہ جا سکا۔ جس کی وجہ سے ان کی بیوی ہیں ان کو کافی طعنے دیے۔ شام کے وقت حکیم صاحب گھر سے نکلے اور سیدھا مسجد میں آ کر بیٹھ گئے۔ عشاء کی نماز کے بعد آپ وہیں بیٹھے رہے۔ صبح تہجد ٹائم حکیم صاحب نے وضو کیا اور سجدے میں گر گئے۔ اللہ سے رو رو کر اپنے بارے میں دعا کرنے لگے۔ اور کہنے لگے کہ یا رب میں آپ کا پرہیز گار بندہ ہو تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ حکیم صاب اتنا روئے کہ آپ کی سجدے والی جگہ آنسوں سے بھیگ گئیں۔ 

اتنی دیر میں صبح فجر کا ٹائم ہوگیا اور نمازی بھی نماز پڑھنے مسجد میں آنے لگ پڑے گا۔ آپ نے وہاں فجر کی نماز ادا کی اور سیدھا گھر آگئے۔ آپ نے سوچا کہ گھر میں تھوڑا آرام کر کے پھر اپنا مکتب کھولتا ہوں۔ ابھی آپ لیٹے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ باہر نکلے تو دیکھا ایک سپاہی دروازے پر کھڑا ہے۔ اس نے حکیم صاحب سے کہا کہ ہمارے سپہ سالار کے پیٹ میں بہت زیادہ درد ہے آپ مہربانی فرما کر ہمارے ساتھ چلیں۔ حکیم صاحب کو سمجھ آ گئی کہ یہ کلونج کا درد ہے۔ حکیم صاحب اپنا تھوڑا سا ساز و سامان ساتھ لے کر سپہ سالار کے پاس پہنچ گے۔ ان کو اپ دوا ڈی اور کچھ ہی دیر میں سپہ سالار ٹھیک ہوگیا۔ اس نے نظر آنے کے طور پر آپ کو اشرفیوں کی ایک تھیلی دی اور شکریہ ادا کیا۔ حکیم صاحب اشرفیہ لے کے گھر آئے اور اپنی بیگم کو سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم کو اس گاؤں سے نکل کر کسی بڑے شہر میں جانا چاہیے۔ ہم ان اشرفیوں سے بڑے شہر میں جاکر مکتب کھولیں گے جس سے ہمارا گزارا ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ ان کی بیوی راضی ہو گئی۔ 

ابھی یہ آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ دروازہ پھر بجا۔ حکیم صاحب دروازے پر گئے تو وہی سپاہی دروازے پر کھڑا۔ اس نے کہا کہ آپ تیار ہوجائیں آپ کو ہمارے ساتھ آگرہ چلنا ہوگا۔ حکیم صاحب جٹ سے تیار ہوئے اور جا کر لشکر میں شامل ہوگئے۔ 

لشکر میں سفر کے دوران انہوں نے سوچا کہ وہ ادھر جا کر اپنا مکتب کھولیں گے۔ جس جگہ پر وہ رہائش پذیر ہوں گے اسی جگہ پر اپنا مکتب کھول کر حکمت کریں گے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب یہ  دارالحکومت آگرہ پہنچا تو بادشاہ کی بیگم نور جہاں شدید درد میں مبتلا تھیں۔ پتہ چلا کہ وہ کئی دنوں سے ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہیں ۔ شاہی طبیب نے بھی اپنا کام کر کے دیکھ لیا لیکن بیوی نورجہان کو کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ 

شاہی لشکر کے سپہ سالار بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے بادشاہ جہانگیر کو حکیم صاحب کے بارے میں بتایا۔ ان کو بتایا کہ کس طرح  حکیم صاحب کی  حکمت سے وہ ٹھیک ہو گئے۔ اور بیگم نور جہان کے علاج کے لیے درخواست کی۔ بادشاہ جہانگیر مان گیا اور ان کو علاج کے لیے بلا لیا۔ 

حکیم صاحب نے چند دن کی دوائی دی جس کے بعد بیگم نور جہاں اٹھ کر چلنے میں کے قابل ہو گئی۔ جس سے بادشاہ جہانگیر بہت خوش ہوا۔ حکیم صاحب کو بہت سارے انعامات سے نوازا۔ ان کو ایک محل بنوا کے دیا۔ شاہی طبیب رکھ لیا۔ خاص طور پر ان کو وزیر خان کا لقب عطا کیا۔ ہاتھی گھوڑے عطا کیے۔ نوکر چاکر عطا کیے۔ مختصر حکیم صاحب کی زندگی سکون سے بسر ہونے لگی۔ حکیم صاحب کی بیگم پہلے آپ کے حکمت کو طعنے دیتی تھی وہی اب آپ کی حکمت کی وجہ سے ملکہ جیسی زندگی گزارنے لگی۔ سب کچھ مل جانے کے بعد بھی حکیم صاحب میں تقوی و پرہیز گاری اور شکرگزاری میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ ابھی بھی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے اس حال میں بھی اپنے خدا کا شکر ادا کیا۔ کیونکہ رب کو آپ کا رونا گڑگڑانا پسند آگیا۔ اور آپ کو وہ کچھ عطا کردیا جس کے آپ حقدار تھے۔ 

آپ کا ہاتھ ہمیشہ نیکی کی طرف ہی رہتا تھا۔ آپ نے بے شمار پل مسجدیں لنگر خانے اور اور بیواؤں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔ 


بادشاہ جہانگیر کے بادشاہ جہاں تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی حکیم صاحب کی بڑی قدر کی۔ ان کو جاگیریں اور بے شمار دولت سے نوازا۔ آپ کا مقام اب اور زیادہ ہوگیا۔ آپ نے اپنے گاؤں کے قریب ہی وزیرآباد شہر آباد کرنے کا سوچا۔ اور ساتھ میں سب سے بڑی مسجد وزیرآباد بنانے کی ٹھان لی۔ آج کل وزیرآباد مسجد آپ کے نام سے ہی منسوب ہے۔ حکیم صاحب اور بھی نیکی کے کام کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لیے بلاوا آگیا۔ 

یہ ہے ایک سچے سجدے کی کہانی۔ اگر آپ بھی ایک سچا سجدہ اللہ کے حضور کر لیں گے تو آپ بی اللہ تعالی کو پسند آ جائیں گے۔ اور جو چیز اللہ تعالی کو پسند آجاتی ہے اللہ تعالی اسے تمام نعمتوں سے نواز دیتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *