محمود غزنی اور اشرفیوں کی تھیلی
محمود غزنی ایک بہت ہی اچھے اور ایماندار سلطان تھے۔ یہ برصغیر کے پہلے ایسے بادشاہ تھے جن کے نام کے ساتھ سلطان لگتا تھا۔ یہ بادشاہت میں اپنی ایمانداری کی وجہ سے جانے تھے۔ ان کے در پر آیا ہوا کوئی بھی سوالی خالی ہاتھ گھر کبھی نہیں لوٹا۔ ان کی امانت داری کا قصہ درج ذیل ہے۔
دربار لگا ہوا تھا اور سلطان محمود غزنی دربار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک سوالی دربار میں اپنی فریاد لے کر حاضر ہوا۔ اس نے سلطان محمود غزنوی کو سلام کیا اور اپنی فریاد سنائی۔ اس نے کہا کہ سلطان محمود غزنی آپ کے ہوتے ہوئے میں لٹ گیا۔ اس نے اپنا مسئلہ سنانا شروع کیا اور کہا کہ بادشاہ سلامت میرا مسئلہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ میں ایک نہایت ہی غریب کسان ہوں۔ میں محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کرتا ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے کام کے سلسلے میں کہیں دور جانا پڑا۔ تو میں نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی آپ کے ایک وزیر کو امانت کے طور پر رکھوا دی۔ میں نے ایک تھیلی اس کو اچھی طرح سے سلائی کیا اور وہ تھیلی آپ کے وزیر کو امانت رکھوا دی۔
آپ کا وزیر میرا جانے والا اور ایک اچھا دوست بھی رہا ہے۔ میں نے اس سے جاتی دفعہ فریاد کی کہ یہ میری ساری عمر کی جمع پونجی ہے۔ آپ مہربانی فرما کر اس کا خیال رکھیے گا میں سفر سے واپس آکر اسے واپس لے لوں گا۔ اس نے مجھ کو بھروسا دیا اور کہا کہ یہ آپ کی امانت ہے اور یہ امانت کے طور پر ہی میرے پاس رہے گی جب تم سفر سے واپس لے لینا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سفر کے لیے نکل گیا۔
میں ٹھیک ایک ماہ بعد واپس آیا اور آکر اسے اپنی امانت واپس لینے پہنچ گیا۔ سلام کے بعد اس نے میری امانت میرے حوالے کر دی۔ لیکن جب میں نے گھر آکر اس تھیلی کو کھولا تو اس میں ہیرے جواہرات کے بجائے کھوٹے سکے موجود تھے۔ میں یہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوا کہ یہ ہیرے جوہرات اب کھوٹے سکے کیسے ہو سکتے ہیں۔
میں یہ بھی دیکھ کر حیران ہو گیا کہ جس طرح کھیلی میں نے سلائی کی تھی بالکل ویسی کی ویسی ہی ہے۔ پر اس میں کھوٹے سکے کیسے آگئے؟ جبکہ میں نے تو اس میں ہیرے اور جواہرات رکھے تھے۔ اے وقت کے بادشاہ سلامت میرے ساتھ انصاف کیجئے۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ میری ساری عمر کی جمع پونجی اسی تھیلی میں تھی۔ اگر مجھ کو وہ واپس نہ ملی تو میں اپنی بچیوں کی شادی نہیں کر سکتا۔
سلطان محمود غزنوی نے سارا واقعہ غور سے سنا اور اس کو بولا جاؤ جب تم کو بلایا جائے تو آجانا۔ وہ آدمی چلا گیا۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنا خنجر نکالا اور جس تخت پر بیٹھا تھا اس تخت کے گدے کو اس نے خنجر سے پھاڑ دیا۔ اور اعلان کردیا کہ دربار تین دن کے لیے بند رہے گا۔ اور اس دربار میں سوائے صفائی والے کے اور کوئی داخل نہ ہو۔ اور یہ اعلان کرتے ہی دربار موخر کردیا۔
اب دربار میں صرف صفائی والا ہی آ سکتا تھا۔ کیا وہ صفائی کے لئے آیا تو اس نے دیکھا کہ سلطان محمود غزنی کہ تخت کا گدا پھٹا ہوا ہے۔ اس نے چیخ و پکار شروع کردی۔ کیونکہ اگر وہ چپ رہتا تو سارا معاملہ اس پر آ جاتا۔ اور اس کو دربار سے نکال دیا جاتا۔ اس کو نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے۔ اس کی چیخ و پکار کو سن کر تمام وزیر بھی آگئے۔
اس نے بادشاہ سلامت کا تخت وزیروں کو دکھایا۔ وزیروں نے یہ دیکھ کر کہا کہ اگر بادشاہ سلامت نے اپنے تخت کی یہ حالت دیکھ لی تو تمام وزیروں کو وہ دربار سے نکال دے گا۔ انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا کہ اس علاقے کے سب سے بڑے رفوگر کو بلایا جائے۔ اور گدا اس طرح رفو کر دیا جائے کہ دیکھنے والے کو محسوس ہی نہ ہو کے یہ گدا پہلے پھٹا ہوا تھا۔
علاقے کا سب سے ماہر رفوگر احمد نامی شخص کو بلایا گیا۔ اس نے اس مہارت سے رفو کیا کہ گدا محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ پہلے پھٹا ہوا تھا۔ تین دن کے بعد دربار دوبارہ لگا۔ سلطان محمود غزنی جب تخت پر بیٹھا تو اس نے دیکھا کہ گدا بالکل رفو ہو چکا ہے۔ اور وہ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کہاں سے پھٹا ہوا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے اسی وقت وزیروں کو بلایا اور ان سے اس کے بارے میں سوال پوچھا۔
وزیروں نے صاف انکار کر دیا کہ ہمیں آپ کے تحت کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا۔ سلطان محمود غزنوی نے کہا کہ میں نے خود اس کو پھاڑا تھا اب بات صحیح صحیح بتاؤ کیا معاملہ ہے۔ جس پروزیروں نے ساری بات بتا دی۔ سلطان محمود غزنوی نے کہا کہ اس رفوگر کو بلایا جائے جس سے تم نے اس گدے کو رفو کروایا ہے۔
اس احمد نامی رفوگر کو دوبارہ بلایا گیا۔ سلطان محمود غزنوی نے اس کے آگے وہی تھیلی رفوگر کو دکھائیں جو غریب کسان نے ان کو دی تھی۔ اور پوچھا کیا تم نے اس تھیلی کو رفو کیا ہے؟
جس پر اس شخص نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ جی بادشاہ سلامت اس کو میں نے ہی رفو کیا ہے۔ آپ کا ایک وزیر میرے پاس یہ تھیلی لے کے آیا اور کہا کہ اس میں ہیرے جوہرات نکال کار کھوٹے سکے بھر دو۔ اس کو اس طرح سے رفو کروں کے کہیں سے بھی یہ پھٹی ہوئی محسوس نہ ہو۔ اس کام کو کرنے کے لیے مجھے حصہ بھی دیا گیا تھا۔
سلطان محمود غزنوی نے کہا کہ اب تم جاسکتے ہو۔ اسی وقت آپ نے اسی وزیر کو بلا لیا جس کے پاس کسان نےتھیلی رکھوائی تھی۔ سلطان محمود غزنوی نے اس سے تھیلی کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے اس تھیلی کے بارے میں بتایا کہ میرا ایک دوست میرے پاس یہ امانت کے طور پر رکھا گیا تھا۔ اور میں نے وہی امانت اس کو واپس کردی۔ لیکن یہ نہ تو کہیں سے پھٹی ہوئی تھی اور نہ ہی میں نے اس کو کھول کر دیکھا کہ اس میں کیا ہے۔ میں نے ویسے کی ویسی ہی امانت اس کو واپس کردی۔
سلطان محمود غزنوی نے کہا کہ اب تو تم سے اکیلے میں پوچھ رہا ہوں تم بتا دو نہیں تو صبح دربار میں تم کو پوچھوں گا۔ پھر تم کو دربار سے بھی نکال دیا جائے گا اور اسے وزارت بھی چھین لی جائے گی۔وہ وزیر اپنی بات پر ڈٹا رہا۔
صبح دربار لگا اور آپ نے کسان کو بلاوا بھیجا۔ اپنے رفوگر کو بھی بلا لیا۔ یہ دیکھ کر وزیر کے اوسان خطا ہوگئے۔ پھر رفو گر نے ساری حقیقت دربار کے سامنے بیان کر دی۔ وزیر کو مجبورا وہی ہیرے جوہرات کسان کو واپس دینے پڑے۔ آپ نے اسی وقت اسے وزارت چھین لی اور اس کو دربار سے بھی نکال دیا۔
کسان آپ کے اس انصاف پر بڑا خوش ہوا۔
یہ وہی وزیر تھا جب اس کے پاس وزارت ہوتی تھی تو گلی محلوں سے گزرتا لوگ اس کی عزت کرتے ۔ اس کو جھک کر سلام کرتے۔ لیکن جب اس کی وزارت کی سے چھین گئی جو لوگ اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ پڑے۔ اب جہاں سے گزرتا لوگ اس کو چور چور کے نام سے پکارتے تھے۔
یہ بات یاد رکھیں عزت دینے والا بھی اوپر والا ہے اور عزت لینے والا بھی اوپر والا ہے۔ لالچ میں آنے کی بجائے جو کچھ آپ کے پاس ہے اگر اس پر آپ خوش رہیں گے تو آپ عزت دار رہیں ۔ نہ عزت دار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سچائی کا دامن ہمیشہ تھام کے رکھیں۔ خوش رہیں اور خوش رہنے دیں۔