دنیا کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا شخص
]
دنیا میں شاید کوئی ایسا بندہ ہوں جو گوگل کے نام سے نا واقف ہو۔ گوگل ایک ایسا گلوبل برینڈ ہے جس نے پوری دنیا میں اپنی چھاپ جما رکھی ہے۔ آپ گوگل کی کوئی بھی چیز یوز کر لیں آپ کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس میں آپ سروس دے سکتے ہیں۔ آپ کے موبائل میں نیٹ ڈیٹا ہونا چاہیے آپ پورا دن گوگل کی سروسز استعمال کرتے جائیں آپ کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا ہوگا۔ لیکن پھر بھی گوگل اربوں ڈالر کماتا ہے۔ اور یہ آپنے سی ای او کو روزانہ ساڑھے تین کروڑ جی ہاں روزانہ ساڑھے تین کروڑ روپیہ معاوضہ دیتا ہے۔
گوگل کے سی ای او کا نام سندر پچائی ہے۔ یہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا شخص ہے۔ اس کا تعلق انڈیا کی ریاست تامل ناڈو سے ہے۔ یہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وقت اس کی عمر 47 سال ہے۔ اور یہ 42 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا سی ای او بن چکا تھا۔ اس کی سی ای او بننے کے پیچھے دو بڑے دلچسپ واقع ہیں۔
پہلا واقعہ۔
پہلا واقعہ اس کا گوگل بورڈ کے سامنے پیش آیا۔ یہ جب 2015ءمیں گوگل بورڈ کے سامنے انٹرویو کیلئے پیش ہوا تو گوگل بورڈ نے اس سے صرف ایک سوال کیا۔ تمہاری زندگی کا سب سے بڑا فیلیر کیا تھا اور تم اس سے باہر کیسے آئے؟
بظاہر تو یہ ایک عام اور سادہ سا سوال لگتا ہے لیکن گوگل بورڈ نے اس سے یہ سوال کیا۔ گوگل بورڈ دنیا کے بہترین انٹیلیجنٹ بندوں میں سے تھا۔ انہوں نے اس سے صرف ایک ہی سادہ لفظوں میں سوال پوچھا۔ اگر گوگل بورڈ میں ہم شامل ہوتے تو ہم اس سے یہ سوال کرتے کہ تم ہماری کمپنی کو کیسے آگے بڑھاؤ گے؟
تم ہماری کمپنی میں کتنا منافع کما کے دے سکتے ہو؟
تم ہمارے خریف فیس بک کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہو؟
لیکن گوگل بورڈ نے صرف اس سے ایک ہی سوال کیا اور اس کو سوچنے کے لئے 35 منٹ کا وقت دیا گیا۔
سندر پچائی نے اس کا جواب دلچسب دیا۔ اس نے کہا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا فلیر محنت تھی۔اس کا کہنا تھا کہ ہم ایک فلیٹ کے کمرے میں رہتے تھے۔ میری ماں او میرا باپ دونوں مل کر محنت کرتے تو پھر ہم دو وقت کی روٹی کھا پاتے۔ میں خود ان کے ساتھ مل کر محنت کرتا۔ دور نال سے پانی بھر کے لاتا۔ اپنے کپڑے خود دھوتا۔ اس محنت نے مجھے اس قدر بنا دیا تھا کہ میں کسی کے اوپر اعتبار نہیں کرتا۔ میں کام کو خود اپنے ہاتھوں سے کرنا بہتر سمجھتا۔ اور یہی میرا سب سے بڑا فیلیر تھا۔
پھر میں نے خود کو بدلا۔ میں نے لوگوں پر اعتبار کرنا شروع کر دیا۔ میں اب دفتر میں صرف اپنا ذاتی کام خود کرتا ہوں باقی میں اپنا کام اپنے ساتھیوں اور اپنے دفتر کے ورکروں سے لیتا ہوں۔ اس نے مجھ کو کو بچائی دا ٹیم میکر بنا دیا۔
یہ بات جب گوگل بورڈ والوں نے سنی تو اٹھ کر کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور بیالیس سال کی عمر میں اس کو سب سے بڑی کمپنی کا سی ای او رکھ لیا۔
یہاں پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ٹیم ورک کے بنا ترقی کرنا ناممکن ہے۔ اکثر یہ بات سنتے ہیں کہ آپ محنت کرتے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات کسی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن محنت کرنے سے آپ کامیاب ٹیچر، کلرک، پروفیسر اور دکاندار بن سکتے ہیں۔ یہ کامیابی صرف ایک حد تک آکر رک جائے گی۔ آپ کامیاب ہوں گے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم کامیاب ہونے کے لیے آپ کو ٹیم ورک کی ضرورت ہوگی۔ ایسا ٹیم ورک جس میں آپ صرف اوپر بیٹھ کر مانیٹر کریں۔ اور آپ کے نیچے لوگ کام کریں۔ یہی اصول بزنس میں چلتا ہے۔
دوسرا واقعہ۔
دوسرا واقع اس سے بھی بڑا دلچسپ ہے۔ ایک دفعہ سندر بچائی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ کہیں سے کاکروچ اڑ کر ایک عورت کے کندھے پر بیٹھ گیا ہے۔ جب عورت نے کاکروچ کو اپنے اوپر بیٹھا دیکھا تو چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ پورا ریسٹورنٹ کھانا چھوڑ کر پوری توجہ اس عورت پر دینی شروع کر دی۔
اتنی دیر میں کاکروچ نے ایک اور اڑان بھری اور کر ایک اور عورت کے کندھے پر بیٹھ گیا۔ اسی عورت نے پھر چلانا شروع کر دیا۔ سندر پچائی دور سے بیٹھا یہ سارے معاملات دیکھ رہا تھا۔ ریسٹورنٹ میں ماحول کو خراب دیکھ کر ایک ویٹر بھاگا ہوا ریسٹورنٹ میں آیا۔ یہ اسی ٹیبل کے پاس پہنچا جہاں پر کاکروچ عورت کے کندھے پر بیٹھا تھا۔ کاکروچ نے ایک اور اڑان بھری اور ویٹر کے جیب کے اوپر بیٹھ گیا۔ ویٹر خاموش رہا اور ساکت کھڑا رہا۔ ویٹر نے سب سے پہلے کاکروچ کا جائزہ لیا اور پھر اپنی جیب میں سے آہستہ سے ٹشو پیپر نکال کر کاکروچ کو پکڑ لیا۔ اور اس کو لے کر باہر چلا گیا۔
سندر پچائی نے اس سے بھی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا۔ کاکروچ دونوں عورتوں اور ویٹر کے لیے ایک جیسا تھا۔ لیکن عورتوں نے دیکھ کر چیخنا چلانا کودنا بھاگنا شروع کر دیا۔ جبکہ ویٹر نے کاکروچ کو دیکھ کر آہستہ سے پکڑ لیا اور لے کر باہر چلا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ زندگی کے معاملات، مسئلے مسائل اور دکھ مصیبتیں سب کے لئے ایک جیسی ہوتی ہیں۔ کوئی ان کو دیکھ کر چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی ان کو دیکھ کر صبر تحمل سے کام لیتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مصیبتوں کے اوپر چیخنا چلانا نہیں چاہیے بلکہ صبر تحمل سے ان کا حل نکالنا چاہیے۔
سندر پچائی نے ان تمام واقعات سے سبق سیکھا اور آج کی سب سے بڑی کمپنی کا سی ای او بن گیا۔