خوش رہنے کا بہترین نسخہ۔
ایک جنگل میں ایک بابا جی ہوا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ اگر کوئی بھی ان کے پاس اپنا مسئلہ لے کر گیا تو وہ ضرور اس کا مسئلہ حل کر دیتے۔ بڑی بڑی دور سے لوگ فریاد لے کر بابا جی کے در پر جاتے اور فیض یاب ہو کر واپس آتے۔ باباجی بھی فی سبیل اللہ ان کے کام آتے اور ان کی مشکلات کا ازالہ کر دیتے۔
ایک سیٹھ جو کہ ایک بہت امیر تاجر تھا۔ دولت کی ریل پیل اس کے پاس بہت زیادہ تھی۔ اس کا کاروبار کئی ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ دنیا کی ہر نعمت کو خرید سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ بندہ خوش نہیں تھا۔ اس کو ایک چیز کی کمی تھی اور وہ تھی خوشی۔
اسی فریاد کو لے کر وہ باباجی کے در پر حاضر ہوا۔ باباجی ایک درخت کے نیچے لنگوٹی باندھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے دیکھتے ہی بابا جی کو سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اپنا مسئلہ بتانا شروع کیا کہ بابا جی میرے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے لیکن پھر بھی میں خوش نہیں ہوں۔ پھر بھی مجھے خوشی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
بابا جی نے فرمایا کہ تمہارے پاس سب سے زیادہ قیمتی چیز کون سی ہے؟
اس نے کہا کہ میرے پاس سب سے قیمتی چیز میرا ایک نیلے رنگ کا ہیرا ہے۔
یہ ہیرا میری تین نسلوں کی کمائی ہے۔ میرے دادا جو کچھ زندگی میں کمایا اس سے سونا خریدا اور وہ سونا میرے والد کو دے گئے۔ میرے والد نے جو کچھ بھی کمایا اور اس سے بھی انہوں نے سونا خریدا اور وہ سونا مجھ کو دے گئے۔ میں نے زندگی بھر جو کچھ کمایا اس سے میں نے بھی سونا ہی خریدا اور اس سونے کو میں نے بیچ کر ایک لال خرید لیا۔
بابا جی نے کہا کہ وہ لال اس وقت کہاں ہے؟
اس امیر شخص نے اپنی ٹوپی اتاری اور اس ٹوپی کو پھاڑا وہ اور لال نکال کر بابا جی کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ باباجی نے وہ لال دیکھا تو وہ دیکھنے میں کافی خوبصورت اور بہت قیمتی نظر آرہا تھا۔ بابا جی نے لال اپنی مٹھی میں رکھا اور دوڑ لگا دی۔ وہ شخص یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور اس نے بھی بابا جی کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ وہ شخص جو ابھی کچھ دیر پہلے بابا جی کے سامنے عقیدت سے کھڑا تھا اب وہی شخص بابا جی کو گالیاں دے رہا تھا۔ اور ان کو رکنے کا کہہ رہا تھا۔
لیکن باباجی بھی اس کی ایک نہ سنی اور لگاتار بھاگتے رہے۔ وہ شخص بھی ان کے پیچھے بھاگتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح سے شام ہو گئی اور جنگل بھی ختم ہوگیا۔ جنگل کے ختم ہونے کے بعد بابا جی ایک بڑے سے درخت پر چڑھ گئے اور چڑھ کر اوپر بیٹھ گئے۔
وہ شخص اجڑے ہوئے بالوں، پھٹی ایڑیوں اور پسینے سے شرابور کھڑا باباجی کو نیچے اترنے کا کہہ رہا تھا۔ وہ شخص جب درخت کے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتا تو باباجی درخت کو ہلا کر اس کو نیچے گرا دیتے۔ وہ کبھی باباجی کو دھمکیاں دیتا اور کبھی گڑا کر ان کی منت سماجت بھی کرتا۔ لیکن باباجی کو کچھ رحم نہ آیا۔
آخر کار وہ شخص تھک کر نیچے بیٹھ گیا۔ بابا جی نے اس سے کہا کہ میں تم کو ایک شرط پر تمہارا ہیرا واپس کروں گا تم میرے سامنے ہاتھ جوڑو اور مجھ کو اپنا خدا مان لو۔ اس آدمی نے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ اے میرے خدا مجھے میرا واپس کر دے۔
بابا جی نے ہیرا اس کے پاؤں میں پھینکا۔ اس شخص نے خوشی کے مارے وہ ہیرا اٹھایا اور خوشی کے مارے اس کو دیکھنے لگ پڑا۔ باباجی درخت سے نیچے اترے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا اب کیسا محسوس ہو رہا ہے؟
اس شخص نے کہا کہ میں بہت زیادہ خوشی محسوس کر رہا ہوں۔
بابا جی نے کہا کہ یہی تو اصل خوشی ہے۔ جب تمہارے پاس یہی ہیرا تھا تو تم کو اس کی قدر نہیں تھی۔ جب یہ ہیرا تم سے صرف دو منٹ کے لئے جدا ہوا تم نے ایک بندے کو بھی خدا مان لیا۔ تمہارے پاس خدا کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں اس لیے تم کو ان کی قدر نہیں اور تم اصل خوشی محسوس نہیں کر سکتے۔ جب تم سے ایک نعمت چھن جاتی ہے تو پھر تم کو اس کی قدر محسوس ہوتی ہے۔
تمہاری زندگی میں تمام خوشیاں صرف ہیرے پر ہی منحصر تھی۔ تم نے اپنی خوشی کو اسی ٹوپی میں سیل کر رکھ دیا خدارا اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بند کر کے رکھنے کی بجائے اس پر خوشی محسوس کرو۔ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر گزار رہو۔ جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے اس پر خوش رہنے کی کوشش کرو۔ جو کچھ تمہارے پاس نہیں اس پر صبر اور تحمل سے کام لو۔ اصل خوشی اس کو کہتے ہیں۔