اگر آپ کامیاب بننا چاہتے ہیں تو آپ کو کام کرنا ہوگا
یہ کہانی ایک ایسے تیرا ک کی ہے جس نے دنیا میں اپنا ایک نام پیدا کیا۔ اگر آپ کھیلوں کا شوق رکھتے ہیں تو آپ کو مارک سپٹز نامی شخص کو لازمی جانتے ہوں گے۔ یہ دنیا کا سب سے بہترین تیراک ہے۔ اس نے نو گولڈ میڈل حاصل کیے، یہ دنیا کا پہلا ایسا کھلاڑی ہے جس نے لگاتار سات گولڈ میڈل حاصل کیے۔ جب یہ گولڈ میڈل حاصل کر کے رپورٹرز کے سوالوں کے جواب دینے لگا ، ایک رپورٹر نے پوچھا کہ یہ آپ کا بہت اچھا دن ہے۔ آج آپ بہت خوش ہوں گے کہ آپ نے گولڈ میڈل جیت لیا۔ آپ کافی خوش قسمت انسان ہے۔ مارک نے رپورٹر کی طرف دیکھا اور اس کو اپنے پاس بلایا۔ کیونکہ رپورٹر کا یہ جملہ مارک ہے دل کو لگ گیا۔
مارک نے رپورٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے بتانا شروع کیا، اس نے کہا کہ 1989 اولمپک گیم مکسیکو میں اس نے حصہ لیا تھا، میں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ میں جیت پاؤں لیکن میں 30 سیکنڈ سے ہار گیا۔ اسی جگہ میں نے کھڑے ہوکر یہ ٹھان لیا کہ اگلے اولمپک میں حصہ لوں گا اور گولڈ میڈل بھی جیتوں گا۔ تم جانتے ہو کے اس 30 سیکنڈ کے وقت کو پورا کرنا کے لئے مجھے کتنی محنت کرنا پڑی۔ مارک نے جواب دیا کہ وہ 10,000 گھنٹے ے پانی میں رہا۔ وہ چار سالوں میں تقریبا 10,000 گھنٹے پانی میں رہا۔ ان چار سالوں میں نے کبھی چھٹی نہیں کی، میں نے اپنی سالگرہ اور کرسمس پانی میں ہی منایا۔ ان چار سالوں میں میرے ماں باپ گزر گئے، میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، میرا کریڈٹ کارڈ خالی ہوگیا، میری گرل فرینڈ مجھ کو چھوڑ کر چلی گئی، میرے پاس نہ گھرنہ گاڑی بڑی اور نہ رہنے کے لیے جگہ موجود تھی، لیکن پھر بھی میں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔
اگر تم ان 10,000 گھنٹوں کو کو چار سالوں پر تقسیم کرو تو 2500 گھنٹہ ایک سال میں بنتے ہیں اور آٹھ گھنٹے ایک دن کے بنتے ہیں لگاتار آٹھ گھنٹے پانی میں رہنے کی وجہ سے مجھ کو ایک بیماری ایسڈ ریفلکس ہوگی جس کی وجہ سے میرے سارے جسم میں درد رہتا تھا۔ لیکن میں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔
یہاں پر ایک بات واضح کرتے جائیں کہ کھیل میں انسان کی خوش قسمتی بھی کام آتی ہے۔ لیکن ایک کھلاڑی ہمیشہ اپنی قسمت کے اوپر نہیں کھیل سکتا۔ کھیل میں آپ کو سب سے زیادہ ضرورت اپنی سکل کی ہوتی ہے۔
اگر آپ کو یقین نہ ہو آپ دوسری مثال لے لیں، دنیا کا سب سے بہترین نامور کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کو کون نہیں جانتا۔ یہ ایک ایسا کھلاڑی ہے جس نے پہلی دفعہ10,000 رن کمپلیٹ کیے۔ یہ دنیا کا ایسا واحد کھلاڑی ہے جس نے200 سینچری مکمل کی۔ یہ دنیا کا تیز ترین رنز بنانے والابھی ہے۔ ایک دفعہ کی بات ہے جب آسٹریلین باؤلر بریڈ ہوگ سچن ٹنڈولکر کو حیدرآباد میں کلین بولڈ کر دیا، وہ خوشی کے مارے اپنا گیند اٹھا کر ٹنڈولکر کے پاس آیا اور آکر اس نے سچن ٹنڈولکر کو کہا کہ اس گیند پر مجھے اپنا آٹوگراف دے دیں کیونکہ میں نے گاڈ آف دی کرکٹ کو آؤٹ کیا ہے۔ جس پر سچن ٹنڈولکر نے قلم لیا اور اس بال پر لکھ دیا ابی یہ
لمحہ تمہاری زندگی میں کبھی نہیں آئے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ سچن ٹنڈولکر کا 21 دفعہ بریڈ ہوگ کا ساتھ آمنا سامنا ہوا۔ لیکن ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی بریڈ ہوگ سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ نہ کر سکا۔ یہ چھوٹے قد کا پلیر لٹل ماسٹر سب کچھ اس لیے بھول گیا کیونکہ اس کے پیچھے اس کی بڑی محنت کھڑی تھی۔
اس نے اس کا خفیہ راز اپنی زبان سے بتا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ جب 16 سال کا تھا تو کرکٹ کی دنیا میں داخل ہوا۔ اور یہ 200 ٹیسٹ کرکٹ میچ کھیل کر 2013 میں ریٹائر ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے 24 سال تک کرکٹ کھیلی، لیکن کبھی ایسا لمحہ نہ آیا کہ میں صبح 6 بجے گراؤنڈ میں موجود نہ ہوں۔ اور میں نے روز 500 بال نہ کھلی ہو۔ رپورٹر کا کہنا تھا کہ کبھی آپ نے چھٹی نہیں کی۔ جس پر سچن ٹنڈولکر نے جواب دیا کہ میں اپنی شادی کے اگلے دن بھی گراؤنڈ میں صبح 6 بجے موجود تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں میں 5 کروڑ بال کھیلیں ہیں اس لئے مجھے کرکٹ کا دیوتا مانا جاتا ہے۔
جب سچن ٹنڈولکر نے 2011 میں ورلڈ کپ جیتا تو وہ اگلے دن چھ بجے بھی گراؤنڈ میں موجود تھا۔ 500 بال کھیلنے کے بعد اس نے اپنا موبائل فون آن کیا اور وزیر اعظم سے مبارکباد کی کال موصول کی۔
اس سے ثابت ہوا کہ کیسے کسی کام کے پیچھے لگی ہوئی محنت انسان کو اپنے کام میں ماہر بنا دیتی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ ہر روز پانچ سو بار کھیلیں یا آٹھ گھنٹے پانی میں رہں بلکہ آہستہ آہستہ لگاتار محنت کرتے رہیں اللہ پاک محنت کا پھل لازمی دے گا.